إن الحمد لله نحمده ونستعينه و نستغفره ونتوكله إليه ، ونعوز بالله من شرور أنفسنا و سيئات أعمالنا ، من يهده الله فلا مضل له و من يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له ، وأشهد أنّ محمد عبده و رسوله ، و صلي الله على سيدنا محمد و على آله و آصحابه و سلم - أما بعد:


کچھ عرصے سے ایسی عبارت نظروں سے گزر رہی ہیں جس میں مستشرقین کی طرز پہ ایسے مضامین شایع کیے جا رہے ہیں جس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کے اسلام اور ریاست کا آپس میں کوئی تعلق اور ربط نہیں ہے، یہاں تک کہ دیا کہ اسلام کا ریاست میں کوئی عمل دخل نہیں ہے. یقینن ملحدوں اور لادینوں کی ریاست کا تو یہی تصور ہوگا، لیکن مسلمانوں کی ریاست میں یہ کیونکر ممکن ہے؟ اس کے لیے کچھ بیتکی دلیلیں اور منتقیں پیش کر کے اپنے ہمنواؤں کے دل جیتنے کی کوشش کی ہے. حلانکے یہ کوئی نئی روش نہیں ہے، یہ تمام منتقیں اس وقت سے اخذ کی جا چکی تھیں جب تاتار مسلمانوں کے علاقوں پر قبضہ کر کے اپنی حکومت بنا چکے تھے، اور کچھ مسلمان گورنر اور نام نہاد علماء ان کو خوش کرنے کے لیے ایسی منتقیں گھڑتے تھے تا کے انکو مال اور حکومت مل جائے. اب دور جدید میں یہ علماء ایسے مسلمان پیدا کر رہے ہیں جو جو گانوں کو تو حلال قرار دیتے ہیں، لیکن حکومت اور قوانین میں اسلام کو حرام کر دیتے ہیں.

عام مسلمان کیونکے قرآن صرف برکت کے لیے پڑھتے ہیں اور اس کو الله کا حکم یا ہدایت کی بنیاد بنا کر اپنی روز مرہ کی زندگی میں تو داخل نہیں کر پاتے، اس لیے ان کے لیے ان دلائل اور منطقوں میں تفریق کرنا کافی مشکل ہے. ٣٠٠ سال کے استحصال کے بعد مسلمان اپنے زیادہ تر ملکوں میں کسی غیر اسلامی استعماری نظام کے تحت رہے ہیں، اور اپنے شعائر بھلا بیٹھے ہیں. اپنی تعلیم میں، اپنی تربیت میں، اپنے قوانین میں، اپنی عمرانیات میں، غرض سبھی جگہہ وہ دوسری قوموں کے شعائر اپنا چکے ہیں. اس لیے جب وہ ان بحثوں کو سنتے ہیں، تو وہ اسے انہی معیاروں سے پرکھتے ہیں جس کی تعلیم استعماری نظاموں نے انھیں دیں ہیں. کیا یہاں ہم یہ تسلیم کر لیں کے مسلمان بحیثیت ایک امّت کے ختم ہو چکے ہیں اور (balkanized) تقسیم ہو چکے ہیں. اس پر ہم بحث آگے کریں گے.

لیکن اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان ازسر نو سے ان اسلوب اور ہدایت کا مطالعہ کریں اور اس میں  مستشرقین اور استعماری معیاروں کو الگ کرکے، اسلامی نظام کا اس کی اصل پر جائزہ کریں. مشکل یہ ہے کے یہ وہی کر پائے جو خلوص دل سے الله کو الہ مانتا ہو، اور صرف اسی کا بندا ہو. نہیں تو الله کو رب تو ہر شخص ہی مانتا ہے. کیا یہ بات سمجھنا اتنی ہی مشکل ہے کہ جب ہر مسلمان الله کو الہ مانے گا اور اس کی کتاب کو حکم سمجھے    گا، اور اس کے نبی کو ہادی مانے گا، پھر ایسے کیسے ممکن ہے کہ جس معاشرے میں یہ سب مسلمان اکثریت میں رہیں گے تو وہاں کے نظام کے الہ الله   تبارک و تعالی نہیں ہونگے ؟ یہ انتہائی آسان بات ہے جو ایک ادنا سے دماغ میں بھی آ جاتی ہے. یعنی گھر تو محمّد الیاس کا ہو اور یہاں ان کا کنبہ رہتا ہو، لیکن اس گھر کو چلانے کے لیے  ایلزبتھ مور کے گھر کے طور طریقے اپنایئں گے. ایسا کون کرتا ہے؟

بھر حال میری کوشش یہ ہے کے الله تعالیٰ کی منشا سے کچھ مضمون تحریر کروں اس بات سے متعلق کچھ بنیادی بحثیں اور دلیلیں مبین ہو جایئں. تاکہ اتنی اتنی بنیادی بات پتا ہو جیے کہ جب ایسی بیتکی اور بہکی کوئی منتقیں سامنے آیئں یہ لوگ کچھ نہ کچھ سوال تو کریں.

فی زمانہ دہشد گردی کی جنگ میں اور انتہا پسندوں نے عام مسلمان کو دین کے اس اسلوب سے اور دور کر دیا ہے. لوگ پہلے ہی اپنے حاکموں کے ظلم ستم سے پریشان تھے، یہ نیا قتل و غارت انھیں اسلام سے مزید متنفر کر رہا ہے. کافی علماء کوشش کرتے ہیں کے اسلام کا صحیح تصور پیش کریں، لیکن سوشل پریشر میں الله کی حاکمیت کے تصور کو پیش کرنے سے ڈرتے ہیں. اس کی وجہ استعماری نظام کے تحت رہنے کی وجہ سے دل میں خوف بھی ہے، لیکن استعماری نظام سے پہلے بھی مسلم بادشاہوں نے ایسے علماء کے ساتھ کافی برا سلوک کیا جو الله کی حاکمیت کا تقویٰ بیدار کرنے کی کوشش کرتے رہے. پاکستان میں یہ مسئلہ نہیں کہ لوگوں سے الله کو الہ تسلیم کرایا جائے، کیونکے سب ہی لا الہ الا اللہ زبانی تو کہتے ہی ہیں. لیکن شاید ان الفاظ کو کہنے کے بعد کیا ذمداری عائد ہوتی ہے اس سے غفائل ہیں.

بہرحال اس تحریر کا منشا صرف اتنا ہے کہ ان کی منطقوں کے آگے کچھ دلائل رکھ دیے جایئں کہ بندہ اس گھڑے میں گرنے سے پہلے کچھ تو سوچے.

یہ بات عام فہم ہے کہ انسان نے اپنی اجتماعی معاشرت کے لیے جو اسلوب معین کیے اس میں ریاست کا ادارہ ایک بنیادی رکن کی حیثیت رکھتا ہے. ریاست ایک ایسی قوت ہے جس سے اس ملک کے لوگ ایک اجتماعی نظام قائم کرتے ہیں. انسانی تہذیب کے ارتقا میں یہ سوچ شروع سے ہی قائم ہے. دور جدید اور قدیم دونوں میں ہی ریاست امن و امن، نظم و ضبط، اور اجتماعی عدل، اور فلاح و بہبود، اور ریاست کے دفع کے کام کرتی ہے. فی زمانہ ریاست کا دائرہ کر کافی پیچیدہ ہے اور بنیادی تمدن سے ہٹ کر زندگی کے تمام ہی شعبوں میں داخل ہے.

اسلام بھی ایک ایسا نظام حیات ہے جو انسان کی زندگی کے ہر شعبے میں اس کا ہدایت کار ہے. یا ہم عموما یہ کہتے ہیں کہ "دین الاسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے".   اسی لیے اسلام نے ریاست کی اہمیت کو کبھی نظر انداز نہیں کیا. یہاں اسلام سے مراد آدم علیہ اسلام سے لیکر اخیر الانبیا محمّد ﷺ سب شامل ہیں، کیونکے یہ سب ہی اسلام کے معلم اور داعی تھے، اور ایک ہی نظام کا سلسلہ ہیں.

یہ الله کے رسول اور انبیا انسانوں کی انفرادی اور اجتمائی قوت کو اسلام کا تاپع کرنے کے لیے ہی بھیجے گیے تھے، اور ان کی زندگی کی جدوجہد اسی پر مصروف رہی. ان میں سے ہر نبی تو اپنے مشن کو پایا تکمیل تک نہ پونچھا سکا، کیونکے اس وقت کی طاقتوں نے ان کا استحصال کیا اور کئی کو شہید کر دیا. لیکن الله نے کئی رسولوں کو کامیاب کیا اور انہونے اسلامی نظام قائم کیا. ان نبیوں نے اپنی اپنی قوموں سے صرف یہی تو مطالبہ کیا کے الله کو الہ مان لو اور الله سے ڈرو.  

يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّـهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُ ۚ أَفَلَا تَتَّقُونَ

 اے برادران قو م، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمہارا کوئی الہ نہیں ہے پھر کیا تم غلط روی سے پرہیز نہ کرو گے؟ (٧:٦٥)

إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ ﴿١٠٧﴾ فَاتَّقُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُونِ ﴿١٠٨﴾

میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں. لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو. (٢٦:١٠٧/١٠٨)

سوره الشعرا میں یہ بات تمام انبیا سے ذکر ہے. یہ انبیا الله کی زمین پر الله کا نظام قائم کرنے کا ہی مشورہ دی رہے تھے. یہ تو ہم سب جانتے ہیں کے محمّد رسول الله ﷺ نے مدینے میں الله کی حکومت قائم کی، قرآن سے پتا چلتا ہے کے یوسف، موسیٰ، داود اور سلیمان علیھم سلام نے بھی اسلامی ریاست قائم کی تھی. ہزار ہاہ الله نے نبی بھیجے ہیں، ان میں کئی اپنے مشن میں کامیاب رہے.

اس سچ کو تمام مسلمان اچھی طرح جانتے ہیں، چاہے زبان سے کچھ ہی کہیں. لیکن اسلامی نظام سے ڈرتے ہیں کیونکے استعماری نظام نے انھیں اس سے بری طرح ورغلایا، اور جو کسر انہونے چھوڑی تھی وہ مسلم ملوکیت کے نظاموں نے اپنے ظلم و ستم سے پوری کر دی.

جاری ہے.