إن الحمد لله نحمده ونستعينه و نستغفره ونتوكله إليه ، ونعوز بالله من شرور أنفسنا و سيئات أعمالنا ، من يهده الله فلا مضل له و من يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له ، وأشهد أنّ محمد عبده و رسوله ، و صلي الله على سيدنا محمد و على آله و آصحابه و سلم - أما بعد:


 جدید ریاست کو ایک لادینی نظام کے ماتحت کرنا ایک جدید فلسفہ ہے جو اٹھارویں صدی کے آغاز میں زیر بحث آیا. اور یہ اس مغرب میں اس پاپائی نظام کی مخالفت میں آیا جس نے بادشاہوں سے گھٹ جوڑ کر کے ان کے مظالم کی تصدیق و سند فراہم کی. بلکل اسی طرح جیسے مسلمان ریاستوں میں کچھ عالم غیر اسلامی نظام اور انکے ظلم جبر پر ٹھپا لگاتے رہے ہیں. آج بھی ایسے عالم ہر ملک میں ہیں جو ایسے نظاموں پر ٹھپے لگا کر مسلمانوں کے حقیقی نظام دین کی راہ میں حائل ہیں. 

مغرب میں عیسایت کی مخالفت اتنا زور پکڑی کے اس کے خلاف ہر طرف سے بغاوتیں ہوئیں.اسی دور میں سیکولر ازم کا آغاز پہلی دفع جارج جیکب ہولیک (George Jacob Holyoake ) کی تحریک سے ١٨٣٢ میں ہوا، جس کا بنیادی مقصد ریاست اور سماجی نظام سے مذہب تو الگ کرنا تھا. سیاسی اصطلاح میں یہ ایک تحریک ہے جو دین اور ریاست میں تفریق کر کے (separation of church and state)، ریاست کے کاروبار کو سول قانون (civil law) کے ماتحت کرتی ہے. اور اس میں سے وہ تمام قوانین نکال دیتی ہیں جو صحیفہ (scripture) کی بنیاد پر ہوں اور اسکی دلیل میں مذہب کے امتیازی سلوک کو قرار دیتی ہے. سیکولر ازم کو مغرب میں روشن خیالی کے دور (age of enlightenment) سے بھی منسلک کیا جاتا ہے. بعد کے لوگوں نے اس کے دو فرقے کے. ایک وہ تو اس عقیدے میں انتہائی سخت روش رکھتے ہیں، اور ریاست میں دین کے مدخلے کو کسی بھی فلسفے یا دلیل سے ناجائز سمجھتے ہیں. دوسرے وہ گروہ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ مطلق سچائی کا حصول ناممکن ہے، اس لیے اس سیاسی عمل میں دین اور ریاست کی بحث میں رواداری کے اصول کو اپنانا چاہئیے. جارج جیکب کا یہ مدعا تھا کے سیکولر ازم نظام کی اخلاقیات میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں اور اخلاقیات کا معیار مذهب سے آزاد سوچ اور الحاد (atheism) کی بنیاد پر ہوگا. اسی فلسفے کو بنیاد بنا کر جدید جمہوری نظام بنایا گیا، جس میں قوانین اور اخلاقیات کا ماخذ دین کے بجائے ان بنیادی فلسفوں پر چھوڑ دیا جو اس سیکولر دین کے موجودوں نے تحریر کئے. اس میں تین باتیں ہمارے زیر بحث رہیں گی.

  1. کائنات کی آغار و ارتقا سے متعلق کسی ایک فلسلفے سے تعلق نہ جوڑا جائے، خاص کر جس سے خدا کا تصور سامنے آئے
  2. اخلاقی معیار کسی دینی صحیفے سے نہیں ماخوز ہونگے، بلکے ایک آزاد سونچ کے حامل ہونگے
  3. دین لوگوں کا انفرادی عمل ہے جس میں ریاست کا دخل نہیں، بلکل اسی طرح جس طرح دین کا ریاست اور اجتمائی معاشرت میں کوئی دخل نہیں
  4. اس نظام کو وہ دین کے خلاف نہیں سمجھتے، بلکے اسے معاشرے میں انسانی مساوات اور عدل کا ضامن قرار دیتے ہیں. عموما سیکولر لوگ اپنے آپ کو الحاد (atheism) سے نتھی نہیں کرتے، کیونکے انکے نزدیک دین صرف ایک انفرادی معاملہ ہے. اس نظام میں انکے نزدیک ہر عقیدے اور خیال فکر میں بحث کی جا سکتی ہے، اور انفرادی لوگوں کے حقوق تو محفوظ ہیں، مگر عقیدے اور اور خیال فکر کے کوئی حقوق نہیں ہیں.

ہمیں ان کے سیکولر دین سے کوئی بحث نہیں الا اس کے کہ ہمارے زیر بحث موضوع سے ان نقطوں کا  تقابلہ کیا جائے، جہاں دین اسلام ہمیں دوسری ترغیب دیتا ہے. بہرحال ہمارے نزدیک اس نظام کے نتیجے میں جو فکر انسانی تشکیل پائی یا فروغ ہوئی اس میں مادہ پرستی، اخلاقی  بے راہروی، دین سے شدید نفرت، ذاتی ہرس اور موقع پرستی، اور آخرت سے لا تعلقی شامل ہے. اس نظام کے مانے والوں نے مادہ پرستی اور مال کی ہوس میں ایسی ہولناک عالمی جنگیں کی جو انسانی تاریخ کے سب سے گھناؤنی جنگیں ہیں جس میں مرنے والوں کو تعداد تاریخی ریکارڈ ہے.

اس کے برعکس دین اسلام کا دائرکار پوری انسانی زندگی ہے، روحانی بھی، مادی بھی، مذہبی بھی، معاشرتی بھی. وہ انسانی زندگی کی جدید تشکیل ان اخلاقی معیار پر چاہتا ہے جو الله سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے ہم تک پوھنچھائیں.  اس دین کا مطالعہ کر لینے والے کو اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا کے اجتماعیت اس کے دینی آداب و مراسم اور نظام زندگی دونوں میں سرایت کے ہوے ہے. اب اگر کچھ لوگ اس زمانے میں دین کو لوگوں کی اجتمائی زندگی سے خارج کرنے کا نظریہ دیں تہ یہ اسلام کا منشا نہیں ہے، بلکے اس زمانے کے لوگوں کا پیدا کیا ہوا فتنہ ہے. انسانی سماج سے کٹ کر دین اپنا صحیح مزاج برقرار رکھ ہی نہیں سکتا. جن لوگوں نے اسلامی احکام کو صرف انفرادی معاملہ رکھا اور اجتمائی نظم اور قوانین سے دور رکھا، اور اسلام کو صرف عبادت ، نسوک اور دو چار اچھی نصیحتوں سے زیادہ نہ سمجھا، انہونے ایک ایک اسلامی معاشرہ کی تنظیم میں ہمیشہ رکاوٹ ہی ڈالی، اور بہانے بہانے سے اس میں شکوک اور شبہات پیدا کیں، اور لوگوں کو اس کے خلاف ورغلایا.

قرآن مجید کی یہ آیات مبارکہ اس نظریے کی نفی کرتی ہے جس میں پیغمبروں کے آنے کا ایک مقصد اس عدل کے نظام کا قیام ہے جس سے لوگوں کے معاملات اور اس میں اختلاف کا فیصلہ الله کی ہدایت کے مطابق کیا جائے.

كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّـهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۖ فَهَدَى اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ ۗ وَاللَّـهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ

ابتدا میں سب لوگ ایک ہی طریقہ پر تھے (پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رونما ہوئے) تب اللہ نے نبی بھیجے جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کج روی کے نتائج سے ڈرانے والے تھے، اور اُن کے ساتھ کتاب بر حق نازل کی تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہوگئے تھے، ان کا فیصلہ کرے (اور ان اختلافات کے رونما ہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ ابتدا میں لوگوں کو حق بتایا نہیں گیا تھا نہیں،) اختلاف اُن لوگوں نے کیا، جنہیں حق کا عمل دیا چکا تھا اُنہوں نے روشن ہدایات پا لینے کے بعد محض اس کے لیے حق کو چھوڑ کر مختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتی کرنا چاہتے تھے پس جو لوگ انبیا پر ایمان لے آئے، انہیں اللہ نے اپنے اذن سے اُس حق کا راستہ دکھا دیا، جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا اللہ جسے چاہتا ہے، راہ راست دکھا دیتا ہے (٢:٢١٣)

اس آیات مبارکہ سے یہ باتیں واضح سمجھ آتی ہیں:

  1. جہاں اللہ تعالیٰ  نے لوگوں کو ایک ہی دین دیا اور ایک ہی امت بنایا، جیسا کہ فرمایا ہے  اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ  ہمیشہ سے اللہ کا دین اسلام ہی ہے. اور الله کو صرف یہی دین لوگوں سے قبول ہے. جو اس دین کے خلاف جائے گا پھر الله کسی اور دین کو نہیں قبول کرینگے.
  2.  ایک یہ کہ الله نے اپنے پیغمبروں کے ساتھ ایک عدل کا نظام اجتمائی بھی دیا جس سے ان کے درمیان ان کے جھگڑوں کا فیصلہ ایک غیر جانبدار اتھارٹی (یعنی الله) کی ہدایت کے مطابق ہو. تاکے تعصب اور ظلم کا عنصر نہ ہو.
  3.  جب ایک دفع یہ عدل حق قائم ہو جائے، یعنی ایک اسلامی معاشرہ و ریاست اس عدل پر قائم ہو جائے تو اس کے بعد مختلف حیلے بہانے سے اسے ختم کیا جائے اور لوگوں کو اس سے متنفر کیا جائے، تو یہ الله کے نزدیک کتنا گھناونا جرم ہے؟

یہ جرم لوگ زمانہ قدیم سے کرتے چلے آ رہے ہیں. اپنے اپنے پیغمبروں کے جانے بعد انکے بنے ہوے اسلامی نظام کو بہانے بہانے سے توڑتے چلے آ رہے ہیں. ہم اپنے زمانے بھی یہی دیکھتے ہیں کے کس طرح چند لوگ اپنے معمولی نفع کے لئے لوگوں کو اسلام سے متنفر کرتے ہیں، اور اپنا وقت اور پیسہ اس بات پر خرچ کرتے ہیں کے کسی طرح بھی اسلام کا نظام نافذ نہ ہو پائے. اور اسلام کی ایسی تاویلات کرتے ہیں جس میں اجتمائی اسلام ایک ناممکن تصور ہو، اور اس کا جدید زمانے میں قائم ہونا نہ ممکن ہو. اور اسلام کو اور قرآن کو صرف برکتوں کے حصول کے لئے اپنے گھر کا قیدی بنا کر رکھتے ہیں، کہ کہیں گھر سے نکل کر خدا نہ خواستہ حکومت کے ایوانوں میں اور عدالتوں تک نہ پوھنچ جائے. ظاہر ہے اگر ایسا ہو گا تو سارا کھیل بگھڑ جائے کا، اور اپنے خود سکتا قوانین سے جو عوام کا مال و دولت ہڑپ کیا ہے وہ واپس کرنا پڑھ جائے گا. اور اس کے برعکس ہر اس نظام کی اچھائی کی تاویلیں پیش کرتیں ہیں جس کی بنیادی عقائد ہی اسلام کی مخالفت کرتے ہیں.

جاری ہے.