إن الحمد لله نحمده ونستعينه و نستغفره ونتوكله إليه ، ونعوز بالله من شرور أنفسنا و سيئات أعمالنا ، من يهده الله فلا مضل له و من يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له ، وأشهد أنّ محمد عبده و رسوله ، و صلي الله على سيدنا محمد و على آله و آصحابه و سلم - أما بعد:


خلاصہ کلام

اب تک جو ابتدائی بحث کی اس  میں کچھ اضافے کے ساتھ خلاصہ کچھ یوں ہے.

  1.  اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، اور یہ مسلمانوں کی اجتمائی معاشرت میں اسی طرح واضح ہدایت فراہم کرتا ہے، جیسے اسکے انفرادی زندگی میں کرتا ہے. اسی لیے اسلام ایک جماعت اور امّت کا تصّور پیش کرتا ہے جس سے جڑ کر لوگ اپنی اجتمائی معاشرت قائم کریں. اور یہ عام فہم بات ہے کہ  ریاست انسانی معاشرت کی ایک لازمی ضرورت ہے. اور اسلام دین اور ریاست و سیاست  میں کوئی فرق نہیں رکھتا. وہ دین کو انسان کے روزمرّہ کے ہر فکر و عمل سے جوڑتا ہے. اور عمل ایمان کا ہی جز ہے.
  2. دین اور ریاست میں قریبی تعلق ہے، اور الله نے اپنے نبی ﷺ  کو بھی ریاست مدینہ سے مدد فراہم کی. اصحاب الرسول نے آپ ہی کی تعلیم پر یمن، فارس اور شام میں فوجیں بھیجیں اور اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی. یہ وہی ممالک ہیں جن کا وعدہ الله تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا تھا. بعد میں اصحاب نے اسلامی ریاست کو آگے تک بڑھایا اور کی ملک فتح کئے، اور وہاں اسلام کا نظام قائم کیا.
  3.  رسول الله سے پہلے بھی کئی انبیا اپنے مشن کی تکمیل میں منطقی کامیابی کے بعد ایک اسلامی   ریاست اور معاشرتی نظام قائم کر چکے تھے، اور اسے انتہائی معیاری طریقے سے استوار بھی کر چکے تھے. ان میں کئی نبیوں کے واقعات قرآن میں بھی موجود ہیں.
  4.  مسلمان اپنے تاریخ کے ہر دور میں کسی نہ کسی فتنے سے گزرے ہیں، اور اس زمانے کے علماء اور مجتہین نے اپنے دور کے فتنوں کا مقابلہ کیا ہے، اور اس فتنے سے نمٹنے کے لئے تشریحات اور تحقیق فراہم کی ہے. جیسے فقہا نے اصول فقہ، محدثین نے اصول حدیث،  اصول تاریخ  وغیرہ اور بعد میں آنے والوں نے فلسفے سے اور مختلف فکروں سے بحث کی اور مسلمانوں کو ان میں فتنہ کرنے والوں کے رد کلام کے لئے تشریحات کیں، اور ایسے اصول وضع کئے کے بعد کے مسلمان ان اصولوں سے استمباط کریں اور ان فتنوں سے محفوظ راہیں. ان تحقیقوں میں نہ صرف بیرونی فکروں اور فلسفوں سے کلام کیا بلکے اندرونی فکروں اور دین میں نت نئی بدعات ایجاد کرنے والوں سے بھی بحثیں وضع کیں کے مسلم فراواریت تقلیدیوں سے بچے رہیں. مسلمانوں کی فرقہ پرستی و تقلید جس کو اندرونی سسیاست اور بیرونی قبضوں نے تقویت دی، ان کے اتنے بڑے تحقیقی ورثے سے انکو دور رکھنے کے لیے انکو ریاستی عصبیتوں، فرقوں چاہے وہ سیاسی ہوں یا مذہبی ہوں، یا لسانی میں تقسیم کرتے ہیں. اور زیادہ تر مسلمان اس علمی تحقیق سے محروم رہ جاتے ہیں، کیونکے ایک دفع جو تقلید میں پھنس جائے اس کا اس سے نکلنا بہت مشکل کام ہے. پاکستان میں زیادہ تر دینی اور سیاسی جماعتیں صریحا تقلید کا شکار ہیں. اپنے قائد کی آرا کے خلاف کچھ نہیں سمجھ سکتیں.
  5.  ہمارے دور کا فتنہ یہی ہے کے مسلمان اپنی ریاست کھو بیھٹے ہیں، اور اپنے دین کی اجتمائی نظام معاشرت قائم کرنے سے قاصر ہیں. اور جو اجماع مسلمانوں میں اس بات پر قائم تھا کے ہمارے اجتمائی نظام کے قوانین اور  اصول کا ماخذ قرآن اور سنّت ہے، یہ سلطنت عثمانیہ کے ٹوٹنے سے بھکر چکا ہے. آج کافی مسلمان قرآن سنّت کے علاوہ ہر چیز کو  اجتمائی نظام کے  اصول  کا ماخذ قرار دیتے ہیں، اور مسلسل ایک استعماری اور اشتراقی نظاموں کے تحت رہنے کی وجہ سے اپنے دین کو بھلا بیٹھے ہیں، اور اب ایک ایسے لادینی نظاموں میں پھس چکے ہیں، جو شریعت کو مسلمانوں کی ذاتی زندگی میں قید رکھنا چاہتا ہے.
  6.  مسلمانوں کی اس وقت ٤٠ سے زیادہ ریاستوں میں  واضع اکثریت رکھتے ہیں، لیکن کوئی ایک ریاست بھی اسلامی قوانین کی پاسداری نہیں کرتی. ان میں سے زیادہ تر ریاستیں انیسویں صدی کے نصف میں قائم ہوئیں جو جنگ عزیموں کے خاتمے کے بعد جنگ بندی کے نتیجے میں کے گئے معاہدوں کے بعد قائم ہوئیں. ان میں زیادہ تر (pan-nationalism) قومی ریاست کی بنیاد پر قائم ہوئیں. جس میں مسلمانوں کی ریاستوں کے چھوٹے چوتھے ٹکڑے کر کے ایسے لوگوں میں بانٹ دئیے گئے جن کو بھر سے قابو میں رکھا جا سکے، یا جو دین اسلام سے کوئی انس نہ رکھتے ہوں. خلیج کی ریاستیں ایسے حواریوں کو دیں کے تیل کی سپلائی میں کوئی مداخلت نہ کریں.
  7.  قومیت مسلمانوں کے لیے ایک نیا فرقہ ہے، جس کی کوئی بنیاد قرآن سنّت میں نہیں، اور رسول الله نے اس عصبیت سے مسلمانوں کو سخت تمبیہہ کی ہے، اور اس سے ممنوع فرمایا ہے. اس ریاستی قومیت پر جو ملک قائم ہوے ان میں پاکستان سر فہرست ہے، اور بنگلہ دیش، مصر، تونس، الجزائر وغیرہ ہیں. باقی شام، لیبیا، اردن، سعودیہ، خلیج، اور عراق اپنے اپنے حواریوں کے حوالے کئے. صرف سعودیہ اور ایران ہی ایسے دو ریاستیں ہیں جو اسلام کو اپنے قوانین کا ماخذ مانتی ہیں، چاہے اس میں کتنا ہی غلو کریں. عراق میں جب صدام کی شکست کے بعد جمہوری حکومت قائم ہوئی تو اس میں اصول و قوانین کا ماخذ اسلام کو نہیں قرار دیا، اور احتجاج کے بعد طلاق اور وراثت کی کچھ باتوں کو لے لیا.
  8. ان ریاستوں میں ان لوگوں کا خصوصا استحصال کیا گیا تو ریاستی قوانین و اصول میں اسلام سے ماخذ کا مطالبہ کرتے ہوں. انکو نہ تو حکومتی اداروں میں کام کرنے دیا، نہ ہی تجارت و معاشرت میں ان کو پنپنے دیا. مصر میں تو باقاعدہ چن چن کر ان کا استحصال کیا، کے زیادہ تر لوگ ملک چھوڑ کر بھاگ گئے، یا اندیری کوٹھریوں میں ریاستی تشدد سے شہید ہویے. اب خبر و اشاعت میں بھی ان کا کوئی عمل دخل نہیں. کوشش یہی ہے کے کسی کو آواز حق بھی بلند کرنے دی جائے. یہی باطل کا دستور ہے، کہ وہ آواز حق سے اتنا گھبراتا ہے کے اس کو کسی اور کو بھی سنے نہیں دی سکتا. حلانکے بظاھر تو ملک میں اظہار رائے کی آزادی کا قانون ہے، پھر ڈرتے کیوں ہیں بھائی. کیا خبر و اشاعت سے لوگوں کی رائے عامہ استوار کرنے کا حق صرف لادینیت کو ہے، دین کو اس کی اجازت نہیں ہے؟
  9. پچھلی صدی میں بے انتہا ایسی تحریکیں بنی جو ریاستی استحصال کے اس نظام کے خلاف کھڑی ہوئیں. ان میں دینی، سیاسی اور جہادی تنظیمیں شامل ہیں. اور ایسے کچھ تشدد پرست لوگ بھی شامل ہیں جو ریاستی نظام کا بہانہ بنا کر قتل و غارت کا سببب بنے. کچھ لوگ ان میں سے اپنی ایک ریاست بنانے میں بھی کامیاب ہو گئے، لیکن دین کے معاملے میں اپنی کم علمی اور انتظامی عمور میں کوئی سمجھ بوجھ نہ رکھنے کی وجہ سے لوگوں کی لعن تان کے حقدار ٹہرے. کچھ دینی و سیاسی تحریکیں واقعتا اچھے خلوص سے شروع ہوئیں لیکن اپنے منطقی انجام سے پہلے ہی اندورنی سیاسی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئیں، اور جو باقی کسر تھی وہ ریاست نے پوری کر دی، جیسے کے مصر میں اخوان کے ساتھ ہوا، اور آج تک ہو رہا ہے.
  10.  مسلموں کی دینی جماعتوں میں اس سلسلے میں کافی تفریق ہے. کچھ ایسی ہیں جو دین کو سیاست و ریاست کے انتظام سے مبرّا کرتی ہیں اور اسلام کو صرف تبلیغی دعوت کا مقصد سمجھتی ہیں. کچھ ایسی ہیں جو دین کو صرف تعلق باللہ اور چند نصیحتوں سے آگے نہیں دیکھتیں، اور صرف اخروی عدل الہی سے مسلمانوں میں تقویٰ اور تزکیہ چاہتی ہیں، قانون شریعت سے عدل اور معاملات طے کرنے پر ہچکچاتی ہیں. کچھ ایسی ہیں جو سیاست میں بھرپور حصّہ لیتی ہیں مگر تزکیہ اور دعوت میں اتنا حصّہ نہیں ڈالتیں. اور پھر جہادی تنظیمیں ہے جو قتال تو کرتیں ہیں مگر اسے شریعت کا تابع نہیں کرتیں. پھر کچھ ایسے عالم بھی ہیں جو ہر غیر اسلامی نظام پر اسلام کا ٹھپا لگا کر حکومت وقت تو انکی تفریح کے لیے جواز نامہ دے دیتے ہیں. اگر ایسا ہی کرنا ہوتا تو رسول الله ﷺ لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ کہنے کے بجایے ایک سال کے لیے قریش سے حمکومت اپنے پاس لی لیتے، آخر کیوں اتنی جنگ کی. رسول الله نے دعوت و تزکیہ بھی کیا، جہاد بھی کیا، اور قانون شریعت نافذ بھی کیا، اور ریاستی عمور و انتظامی بھی استوار کیا. اور بعد میں ان کے اصحاب نے بلکل ایسا ہی کیا. اگر یہ سب کام اگر یگجھا ہو جایئں تو آخر اس میں قباحت کیا ہے.
  11.  فی الواقعہ چاہے حکومتیں آمرانہ ہوں یا جمہوری یا اس کے درمیان میں کچھ ہوں، ایسے لوگوں کا ہمیشہ استحصال ہی ہوا ہے جو ریاستی عمور میں دین الحق کی تعبیر چاہتے ہوں. ابن تیمیہ جیسے بے ضرر انسان کا بھی جیل ہی کی قید میں انتقال ہوا. اور مامموں الرشید نے احمد بن حمبل پر اتنا تشدد کروایا کے آپ نماز میں ہاتھ بھی اپر نہ اٹھا پائے. حلانکے آج مامموں کو کوئی نہیں جانتا لیکن امام احمد کو الله نے انتہائی عزت دی، اور ان کا وقار بلند کیا. یہ فیصلہ تاریخ ہی کرتی ہی، ہمیشہ ایسا ہی ہوا ہے. مصر، سعودیہ، عراق، پاکستان، بنگلہ دیش، شام، الجیریا ہر جگا یہی حال ہے. جو لوگ حکومتوں پر قابض ہیں وہ ایسے عالم ڈھونڈ ہی لاتے ہیں جو انکے نظام پر ٹھپا لگا دیں.
  12.  اس تحریر کو لکھنے کا ایک مقصد یہی ہے کے ان نام نہاد نکمے ان پڑھ لوگوں سے ہرگز نہ ڈرا جائے، اور ان کی تنقید کا کھرا جواب دیا جائے اور ان کے دہنی تعصب اور اسلام سے ان کی فکری نفرت کا بھرپور رد کیا جائے، اور اسلام کو کسی ایک ایسے خانے میں قید نہ کرنے دیا جائے، جس سے اس کا کلی ڈھنگ اور اسلوب بظاہر اوجہل ہو جائے. اور اظہار رائے کی آزادی کے ان جھوٹے دعوے داروں سے جو اپنی متضاد رائے کی بات نہ سنے کے لیے تیار ہیں بلکے تمام تر ریاستی طاقت کا استعمال کر کے اس آواز کو دبانے کے خوہاں ہیں. آج کل تو یہ کام اور بھی آسان ہے، کسی پر بھی لیبل لگا کر ایک ڈروں چلا دیا جائے. یہ خوں کے پیاسے متعصب لوگ ہیں جو اسلام سے خائف ہیں.

اس ابتائی بحث کے بعد ہم مختلف مضامین پر بحث کرینگے. اور اپنی کفتگو کا محور اسلام اور ریاست پھر ہی رکھیںگے. اس کا یہ مطلوب نہیں کے اسلام میں ریاست کے علاوہ کوئی اور بات نہیں ہے، لیکن یہ اس وقت اس مضمون کا محور اور موضوں زیر بحث  یہی ہے.

الله سے دعا ہے کے چھٹیوں کے بعد بھی وقت نکلتا رہے کے اس کم عقل انسان کا یہ مضمون جاری رہے. اور الله تعالیٰ آخرت میں ہماری یہ شہادت قبول کریں کہ ہم دنیا میں یہ بات کہنے میں ہرگز نہیں گھبرائے کے ہمارا دین اسلام ہے اور ہمارا قانون شریعت ہے، اور یہ ہمارے ہر قول و فعل میں شامل ہے، اور ہم اسی کے تابع ہیں. اور الله سے  دعا ہے کہ اسی پے ہمارا خاتمہ ہو اور الله ہمیں ان فتنوں سے دور رکھے . آمین 

جاری ہے