إن الحمد لله نحمده ونستعينه و نستغفره ونتوكله إليه ، ونعوز بالله من شرور أنفسنا و سيئات أعمالنا ، من يهده الله فلا مضل له و من يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له ، وأشهد أنّ محمد عبده و رسوله ، و صلي الله على سيدنا محمد و على آله و آصحابه و سلم - أما بعد:
اسلامی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کے ہر دور میں مسلمان کسی نہ کسی فتنے اور پریشانی کا شکار رہے ہیں. ابو بکر رضی الله عنہ کے دور میں جھوٹے نبیوں اور زکات نہ دینے کا فتنہ رہا. آپ نے موثر طریقے سے اس کا بھرپور مقابلہ کیا اور اسے ہمیشہ کے لیے ختم کیا. نہیں تو آج بھی ہم جھوٹے نبیوں کے معملے میں مخمصے میں رہتے. پھر بڑی تعداد میں حفاظ کی شہادت کے وجہ سے قرآن کو باقاعدہ کتابی شکل میں شائع کیا گیا. پھر عثمان رضی الله عنہ قرآن کی قرشی قرأت کو سرکاری طور پر شائع کر کے ایک اور فتنہ سے بچایا. پھر صحابہ کے وصل کے بات جید علماء نے فقہ اور اصول فقہ کی تحقیق کے ذریے استمباط اور اجتہاد کی راہ نکالی اور مسلمانوں کو ایک عظیم فتنے سے بچایا. پھر محدث علماء میدان میں آئے اور اصول حدیث استوار کر کے جھوٹی حدیثوں کا قلاقما کر کے مسلمانوں کو ایک اور تفرقے سے بچایا. پھر علماء نے فلسفے کو دفن کیا. غرض کے ہر دور میں اس زمانے کے مسلمانوں نے اپنے دور کے فتنوں سے اسلام کا دفع کیا.
ہمارے دور کا فتنہ یہ ہے سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد اسلامی ریاست مسلمانوں سے چھن گئی ہے. اس کے بعد مسلمانوں کے علاقوں کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر کے انہیں قومی ریاست کے طرز پر قائم کر دیا ہے، تاکہ مسلمان کبھی دوبارہ متحد نہ ہو سکیں. اور ایک دوسرے کی نفرت اور تعصب میں ہمیشہ الگ الگ رہیں. کیا ہم نہیں دیکھتے کے ایک بڑا ملک جس میں کئی ملک شامل ہیں انتہائی طاقتور اور سپر پاور ہے، اور چھوٹے ملک سب کمزور ہیں. جب مسلمان متحد تھے تو وہ بھی ایک سپر پاور تھے.
یہ بات سب مسلمان اچھی طرح جانتے ہیں کے رسول الله عصبیت کے سخت مخالف تھے. اس قسم کے چھوٹے چھوٹے ملک قومیت کی بنیاد بنا کر قائم کرنا مسلمانوں میں عصبیت کو فروغ دینا تھا، اور انکو اس ملت واحد کے فلسفے سے دور کرنا تھا جس سے ہزارہا سال اسلام ایک مضبوط اور فتح ریاست کی شکل میں موجود رہا. کیا اس طرح کی قومیت کے بارے میں رسول الله ﷺ نے حکم نہیں فرمایا؟:
عَنْ جُنْدَبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيِّ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " مَنْ قُتِلَ تَحْتَ رَايَةٍ عُمِّيَّةٍ يَدْعُو عَصَبِيَّةً أَوْ يَنْصُرُ عَصَبِيَّةً فَقِتْلَةٌ جَاهِلِيَّةٌ ".
حضرت عبدللہ البجالی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول الله نے فرمایا جو اندھے (گمراہی کے) جھنڈے تلے مرا گیا اور وہ عصبیت کی طرف بلاتا تھا، یا عصبیت کی مدد کرتا تھا، تو یہ قتل جاہلیت کا ہو گا. (صحیح المسلم)
عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی الله علیه وسلم قَالَ « لَيْسَ مِنَّا مَنْ دَعَا إِلَى عَصَبِيَّةٍ وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ قَاتَلَ عَلَى عَصَبِيَّةٍ وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ مَاتَ عَلَى عَصَبِيَّةٍ ».
حضرت جبیر بن مطعم سے روایت ہے، رسول الله نے فرمایا: جس نے عصبیت کی دعوت دی وہ ہم میں سے نہیں. جس نے عصبیت پر لڑائی کی وہ ہم میں سے نہیں، اور جو عصبیت پر مرا وہ ہم میں سے نہیں. (سنن ابو داود)
اس طرح قائم کئے ملکوں میں لوگ یہ کہتے ہیں کے اسلام ان کا دین ہے، اور کبھی کبھی یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ وہ اسلام کے داعی و حامی اور محافظ ہیں، لیکن انہونے اپنے زندگی سے اسلام کو خارج کر رکھا ہے. اور ظاہر ہے کے ملک کے نظام میں تو اسلام کی مداخلت کے سریحا مخالف ہیں. امور مملکت اور اقتصادی معملات میں تو دین کا نہ کوئی دخل ہیں اور نہ کوئی واسطہ ہے. ان کے نزدیک دین ایک ذاتی معملا ہے جو بندے اور الله کے درمیان ہیں، امور مملکت سے اس کا کوئی تعلق نہیں. جب انھیں اس بارے میں قرآن و سنّت سے دلائل پیش کئے جایئں تو نہ صرف اس کا مذاق اڑاتے ہیں بلکے یہ کہ کر جان چھوڑاتے ہیں کہ یہ مذہبی فرقہ واریت ہے اور ایک فرقے کی تاویل (interpretation) ہے، آخر کس کا اسلام نافذ کریں، ہر فرقے کی اپنی تاویل ہے. اس لیے اسکو نافذ کرنا ممکن نہیں ہے. حلانکے جس قانون کو وہ خود نافذ کر رہے ہیں اس کا کوئی سر پیر نہیں ہے، ہر شخص اپنی منطق لے کر آ جاتا ہے.
١٩٧٠ میں انتخابات میں پیپلز پارٹی نے بھر پور حصّہ لیا. ان کا نعرہ تھا:
- ١- اسلام ہمارا دین ہے
- ٢- سوشلزم ہماری معیشت ہے
- ٣- جہموریت ہماری سیاست ہے
- ٤- طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں
عوام میں دینی معلومات کم ہونے کی وجہ سے یہ نعرہ کافی مقبول ہوا. حلانکے اس نعرے کے تمام اجزا ایک دوسرے کے مخالف اور متصادم ہیں. اور ایک جزو دوسرے جزو کو باطل قرار دیتا ہے.
اس بات سے تمام مسلمان متفق ہیں کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے. لہذا اسے سیاست اور معیشت کے لیے دوسرے نظاموں سے مستعار لینے کیا کیا ضرورت ہے؟ یا یوں کہا جائے کے ہمارا دین اسلام فی الواقعہ سوشلزم اور مغربی جہموری نظام کا محتاج ہے. تو پھر ہمیں کھلے دل سے یہ ماننا ہو گا کے اسلام ایک نامکمل دین ہے.
حلانکے سوشلزم کا دائرہ صرف معیشت تک نہیں رہتا، بلکے بنیادی عقائد اور سیاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے. اسی طرح جہاں مغربی طرز جہموریت اور طرز انتخاب ہو گا وہاں لا محالہ حاکمیت عوام کی ہو گی، چاہے اس ملک کے آئیں میں واضع لکھا ہو کہ "اقتدار اعلی" کا ملک الله تعالیٰ ہیں. کیونکے اس طرز کے طریقے کار کا منطقی نتیجہ یہی برآمد ہوتا ہے کے حاکمیت عوام کی ہو. اب کوئی یہ خوش فہمی رکھے کے طرز انتخاب تو مغربی جہموریت کا سا ہو اور اس کے نتیجے میں الله تعالیٰ کی حاکمیت تسلیم کر لی جائے گی، تو ہم ان کی سادہ لوہی اور خوش فہمی کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے. (خلاصہ مقالہ عبدالرحمن کیلانی).
ان خیالات پر اور مسلمانوں کے طرز انتخاب پر ہم آگے مزید بحث کریں گے. فی الوقت صرف اتنی تمہید بنانی ہے جس سے اسلام اور ریاست کے روابط سے کچھ آگاہی ہو.
جاری ہے.