إن الحمد لله نحمده ونستعينه و نستغفره ونتوكله إليه ، ونعوز بالله من شرور أنفسنا و سيئات أعمالنا ، من يهده الله فلا مضل له و من يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له ، وأشهد أنّ محمد عبده و رسوله ، و صلي الله على سيدنا محمد و على آله و آصحابه و سلم - أما بعد:


قرآن میں یوں تو بے انتہا آیات ہیں جو طاقت اور حاکمیت سے متعلق ہیں، مگر یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہئیے کے قرآن یا سنّت براہ راست کسی مثالی ریاست کی تشبیہ پیش نہیں کرتا. اور نہ ہی یہ قرآن کی تنزل کا اصل مقصد ہے. لفظ خلیفہ قرآن سے ہی لیا گیا ہے، مگر یہ الله کے نائب کے سیاق و سباق میں ہے. لیکن قرآن ہی کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کئی انبیا نے ریاست اسلامی قائم کی ہیں، اور انہیں اچھی طرح چلایا ہے. جیسے ہم پہلے بتا چکے ہیں. 

ہجرت مدینہ کے قریب الله تعالیٰ نے یہ آیات نازل کی جس سے قیام دین کے لئے ریاست کی اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے.

 وَقُل رَّبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّي مِن لَّدُنكَ سُلْطَانًا نَّصِيرًا ﴿٨٠﴾

اور دعا کرو کہ پروردگار، مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے (١٧:٨٠)

یعنی یا تو  اقتدار عطا کر  دیں یا پھر کسی اقتدار کو معاون بن دیں تا کے ریاست کی طاقت سے اس دنیا کی برائیوں کو ختم کر سکوں، اور فاحشہ اور معاصی سے لڑ سکون. یہ تفسیر اس آیات کی جلیل قدر مفسرین نے کی ہے، جس میں حسن بصری، قتادہ، ابن کثیر، ابن جریر شامل ہیں.

سلطانا نصیرا سے مراد کھلی دلیل بھی ہے، لیکن پہلا قول پہلا ہے اس لیے کے حق کے ساتھ غلبہ اور طاقت بھی ضروری چیز ہیں تا کے مخالفین حق دبے رہیں. ایک حدیث میں ہے:

عن عثمان رضي الله عنه أنه يقول: ( إن الله يزع بالسلطان مالا يزع بالقرآن ) یعنی ریاست کی طاقت سے الله تعالیٰ بہت سی ان برائیوں کا سدّباب کر دیتا ہے جن کا سدّباب قرآن سے نہیں کرتا. اور یہ بلکل واقعہ ہے کہ بہت سے لوگ ہیں جو قرآن کی نصیحتیں، اس کے وعدے و عیداں ان کو بدکاریوں سے نہیں ہٹا سکتے، لیکن اسلامی ریاست سے مرعوب ہو کر وہ برائیوں سے رکھ جاتے ہیں.

پھر حکم ہوا کہ غلبے اور مدد کی دعا ہم سے کرو. اس دعا پر الله تعالیٰ نے فارس اور روم کا ملک اور عزت دینے کا وعدہ فرمایا لیا تو اتنا رسول الله معلوم کر چکے تھے کے بغیر غلبے کے دین کی اشاعت اور زور نہ ممکن ہے، اس لیے الله تعالیٰ سے مدد اور غلبہ طلب کیا تھا کے کتاب الله، فرائض شرح اور قیام دین آپ کر سکیں. یہ غلبہ بھی الله کی زبردست رحمت ہے. (تفسیر ابن کثیر)

یہاں یہ بات مفصل سمجھ آ جاتی ہے کے اسلامی دین کی نوعیت ہی ایسی ہے جو ایک خاص اجتمائی معاشرت کا مطالبہ کرتی ہے. یعنی اگر کوئی  دین اسلام کی اصلاحات دنیا میں لانا چاہتا ہے وہ صرف واعظ اور دعوت سے ممکن نہیں ہو سکتی،  بلکے اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک اجتمائی سیاسی اور ریاستی طاقت درکار ہے.

یہ بات اقوام الناس بھی اچھی طرح جانتے ہیں کے کسی بھی سماجی نظام کی معاشرت کے قیام کے لئے ایک ریاستی اختیار (اتھارٹی) درکار ہے، جو لوگوں میں نظم اور عدل قائم کر سکے.ابن تیمیہ فرماتے ہیں کے انسانیت کی بھلائی کبھی تعبیر نہیں ہو سکتی الا یہ کے کسی  سماجی نظام کے تحت ہو، کیونکے ہر ایک نفس دوسرے پر انحصار کرتا ہے، اور معاشرے کے لیے یہ ناگزیر ہے کے اسکی کوئی قیادت کرے. 

تعاون اور باہمی مدد اچھائی کی آبیاری کرنے اور نقصان سے بچنے کے لئے ضروری ہیں. یہی وجہ سے کہا گیا ہے کہ انسان ایک سماجی فطرت میں ڈھلا ہے. اور جب انسان منظم ہو تو پھر یہ یقینی ہے کہ ایسے معملات کا سامنا کرینگے جو وہ اپنے اجتماتی بھلائی کے لیے کرینگے، اور ایسی چیزوں سے روکیں گے کیوں کے وہ معاشرے کے لیے نقصان دہ ہیں. اور پھر وہ کسی نہ کسی کی قیادت کو تسلیم کرینگے جو ان مقاصد کو اپنا حاصل بنائے، اور جو ان برائیوں کو روکے. اس لیے انسانیت کے لیے ایک ایک قیادت کو تسلیم کرنا لازم ہے.

پھر یہی بات الله تعالیٰ نے اپنے نبی کو دعا کے ذریعے اس آیات میں سکھائی  (جس کا ہم نے ابھی  پیچھے ذکر کیا ہے). تو یہ ثابت کرتی ہے کہ دین کے قیام کے لیے اور شرعی قانون اور حدود الله کے عملی انتظام کے لیے یہ جائز ہے کے مسلمان ریاست کے حصول کی لیے جدوجہد کریں. یہاں اب ریاست ایک عملی ضرورت ہے.

ڈاکٹر محمّد اقبال نے خوب شعر کہا ہے:

رد را ربط جماعت رحمت است

جوہر او را کمال از ملت است

ترجمہ :  فرد کے لیے جماعت سے ربط پیدا کرنا رحمت کا باعث ہے اس کے تمام جوہروں ( خوبیوں ) کو ملت ہی کی بدولت کمال حاصل ہوتا ہے

الله تعالیٰ نے نبی  ﷺ  سے یمن، روم، اور فارس کی سلطنت کا وعدہ کیا تھا، جو پورا ہوا. لیکن یہ وعدہ ایسے نہیں پورا ہوا کے نماز فجر کے بعد حضرت جبریل روم کی کنجیاں دے گئے، بلکے اس کے لیے مسلمانوں نے شدید جدوجہد کی، اور جہاد کیا. ابو بکر نے خالد بن الولید کے ذریع عرب کو تابع کیا, نہیں تو جھوٹے نبی پورے عرب میں پھیل گئے تھے. پھر عراق اور ایران میں فوجیں بھیجیں، جس میں خالد بن الولید، مثنى ابن حارث الشيباني، قاقا ابن عمر التميمي ، اور سعد بن ابی وقاص جیسے جلیل القدر مجاہد شامل تھے، جنہونے فارس کی انتہائی طاقتور فوج کو بےبس اور پسپا کیا. پھرشام  میں ابو عبیدہ ابن الجراح ، خالد بن الولید، عمر بن العاص اور بڑی تعداد میں نامور اصحاب رسول شریک ہوئے. پھر عمر بن خطاب کے دور میں یہ ریاستیں مکمل طور پر فتح ہوئیں، اور  عمر بن العاص نے مصرفتح کیا. اور خلیفہ عثمان بن عفان کے دور میں فتوحات جاری رہیں. خلیفہ عمر بن خطاب کے ہی دور میں مجاہد پاکستان تک آ پونچھے تھے.  عمر بن العاص تو افریقہ میں اور آگے تک جانا چاہتے تھے، مگر حضرت عمر نے یہ کہ کر روک دیا کے پہلے جو فتح ہوا ہے اس میں نظام صحیح سے قائم کر لیں، پھر انہی علاقوں کے لوگ  آگے اسلام لے جایئں گے، اور واقعتا کچھ ہوا بھی ایسے ہی، اور بعد کے مسلمان یورپ اور روس تک پوھنچ گئے.

یہ تمام جہاد اصحاب رسول نے سلطنتیں اور مال دولت ہتیانے کے لیے نہیں کیا تھا، بلکے اسی سوچ اور فکر کے نتیجے میں تھا کہ ریاست کی طاقت کے بغیر عملا حدود الله قائم کرنا نہ ممکن ہے، اور عملا یہ بھی نہ ممکن ہیں کے جو اخلاق کا معیار الله نے متعین کیا ہے، جو عدل کا قانون الله نے دیا ہے، جو معملات رسول الله نے سکھائیں ہیں، وہ اس کی دعوت عام دوسروں تک پوھنچا پائیں گے اور دوسری ریاستیں اور سلطنتیں ان سے جنگ نہ کرینگی؟ بلکل اسی طرح جس طرح قریش نے مکہ میں رسول الله سے جنگ کی اور بل آخر رسول الله کو مکہ سے ہجرت کرنا پڑی، اور فوراً   ہی بدر میں قریش سے جنگ کرنی پڑھی.

جب رسول الله ﷺ   کا خط لیکر قاصد شاہ فارس خسرو پرویز کے ملک  میں گئے تو اس نے آپ کا خط مبارک پھاڑ دیا اور  انتہائی بدکلامی کی، اور اپنے دو قصد رسول الله کے پاس دھمکی دیکر بھیجے کے فورا میرے دربار میں پوھنچو ورنہ.. اب مسلمان دعوت کا مشن لیکر جاتے تو کیونکر وہ انکو وہاں تبلیغ کرنے دیتا. یہ بات انتہائی معمولی سی عقل والے کو بھی سمجھ آ سکتی ہے. اسی لیے اصحاب رسول اور بعد میں خلف الرسول نے اتنی جدوجہد اور جہاد کیا. وہ  یہ بات اچھی طرح سمجھتے تھے. حلانکے آج کل کے لوگ اس کو سمجھنے سے انکاری ہیں.

یہاں صحابہ نے ان سے زبردستی اسلام نہیں قبول کرایا، بلکے صرف ریاستی کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیا. ابو عبیدہ بن الجراح نے تو عیسائیوں سے یہاں تک معاہدے کیے کے انکو انکی زمین پر آزاد رہنے دیا، اور ان سے یہ کہا کے اپنے لوگوں کے معملات خود حل کریں، اگر ہمارے پاس معاملہ لایئں گے تو ہم اپنے شرعی قانون سے حل کرینگے، اور ہم آپ کا ذمہ لیتے ہیں، اگر ہم آپ کی حفاظت نہیں کر سکے تو آپ کا دیا جزیہ واپس کر دینگے. یہ ایک الگ بحث ہیں کے جہاد کے طریقہ کار کیا ہیں، یہاں صرف اتنا مبین کرنا ہے کہ اسلام میں حصول ریاست کوئی نئی فکر نہیں ہے، جیسے کچھ لوگ ایسی باتیں پھیلا رہے ہیں، نہیں تو انکو یہ ماننا ہوگا کے رسول الله سے لیکر تمام راشد خلفاء خامہ خواں ہی ریاست قائم کرنے میں لگے ہوئے تھے. کوئی بھی یہ دعوى قبول نہیں کرے گا کے ابو عبیدہ ابن الجراح  اور خالد بن الولید شام میں ہزاروں سپاہی لیکر تبلیغی جماعت کے چلّے پر نکلے تھے.

جان لیجئے کہ ابو عبیدہ ابن الجراح وہ جلیل القدر صحابی ہیں جو عشرہ مبشرا میں شامل ہیں، جنھیں خود سیدنا ابو بکر صدیق نے سقیفہ میں خلیفہ اول نامزد کیا تھا، لیکن انہونے انکار کیا. بعد میں سیدنا عمر بن خطاب انھیں اپنے بعد خلیفہ نامزد کرنا چاہتے تھے. اس سے ان کی قدر منزلت کا پتا چلتا ہے.   یہ کوئی معمولی صحابی نہیں کہ ملک فتح کرنے بغیر دلیل کے ایسے ہی چل پڑتے.

جاری ہے.