إن الحمد لله نحمده ونستعينه و نستغفره ونتوكله إليه ، ونعوز بالله من شرور أنفسنا و سيئات أعمالنا ، من يهده الله فلا مضل له و من يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له ، وأشهد أنّ محمد عبده و رسوله ، و صلي الله على سيدنا محمد و على آله و آصحابه و سلم - أما بعد:


ہم قرآن اور سنت کے مفصل دلائل سے آگے بحث کرینگے، اس ابتدائے میں چند قرانی آیات کا مطالعہ کرتے ہیں. الله تعالیٰ نے فرمایا،

لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ ۚ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ 

ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور اُن کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں، اور لوہا اتارا (جو ریاست کی قوت و جبروت ہے) جس میں بڑا زور ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں یہ اس لیے کیا گیا ہے کہ اللہ کو معلوم ہو جائے کہ کون اُس کو دیکھے بغیر اس کی اور اُس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے یقیناً اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے (٥٧:٢٥)

یہاں انتہائی مختصر سی عبارت میں رسولوں کے بھیجنے کے مقصد کو الله تعالیٰ  نےبلکل واضح کر دیا. یعنی جتنے بھی نبی آیئے وہ تین چیزیں لیکر آئے:

١) اپنے رب کی طرف سے مبین اور صاف صاف نشانیاں اور دلائل لیکر آئے جن سے ثابت ہوا کے واقعی یہ الله کے نبی ہیں اور سچ کہ رہے ہیں اور جس کو باطل قرار دی رہے ہیں وہ واقعی باطل ہے. اور واضح ہدایات لے کر آئے جس میں بغیر شک انکے عقائد، اخلاقیات، عبادت، معاملات میں راہ راست فراہم کی، تاکہ جو صحیح ہیں اسے اختیار کریں، اور جو غلط ہیں اس سے اجتناب کریں.

٢) ایک کتاب الله اپنے ساتھ لائے جس میں یہ تعلیمات لکھ دین جس کو لوگ اپنے رہنمائی کے لیے اس سے رجوع کریں

٣) اور ایک میزان الحق لیکر آئے کے لوگوں کو حق و باطل میں صاف صاف ترازو میں تول کر فرق بتا دے، پھر لوگ اس سے اپنے درمیان انصاف کا معیار طے کریں

ان چیزوں کے ساتھ انبیا کو اس مقصد لیے بھیجا گیا کے وہ دنیا میں انسان کی اخلاقیات اور نظام زندگی میں انفرادی اور اجتمائی حیثیت میں عدل کو قائم کر سکیں. کہ ہر شخص ان فرائض اور حقوق کو اچھی طرح جان لی جو اس کے اور الله کے درمیان ہیں، اور اس کے اور الله کی مخلوق کے درمیان ہیں. اور اجتمائی نظام زندگی ان الله کے بتائے ہوے اصولوں پر قائم کرے جس سے معاشرے میں حقیقی عدل قائم ہو اور ظلم باقی نہ رہے. اور تہذیب و تمدن اور اخلاقیات کے ہر پہلو افراط و تفریط سے محفوظ ہوں، اور انہی حقیقی ہدایت کے تابع ہوں. تا کے فرد اور جماعت ایک دوسرے کی روحانی، اخلاقی اور مادّی فلاح میں ایک دوسرے کی معاؤں و مددگار ہوں، نہ کے ایک دوسرے کی مانع اور مزاحم ہوں (جیسا کے ہم اپنے ممالک کے سیکولر نظاموں میں دیکھتے ہیں.). (خلاصہ من التفہیم القرآن)

پھر الله تعالیٰ نے فرمایا کے منکرین حق کی سرکوبی کے لئے لوہا بنایا ہے. یعنی اولا تو کتاب، رسول اور حق سے   حجت قائم کی پھر ٹیڑھے دل والوں کی کجی نکالنے کے لئے لوہا پیدا کیا تا کے اس سے ہتیار بنیں اور خدا دوست انسان دھشمنان خدا کے دل کا کانٹا نکال دیں (تاکے وہ انھیں حق کی ترغیب دینے سے نہ روک سکیں). یہ نمونہ رسول الله کی زندگی میں بلکل عیاں نظر آتا ہے کہ مکہ کے ١٣ سال مشرکین کو سمجھانے اور توحید کی دعوت دینے اور ان کے عقائد کی اصلات میں گزارے، خود بے انتہا مصیبتیں جھیلیں، لیکن جب یہ حجت ختم ہوئی تو مسلمانوں کو ہجرت کی اجازت دی گئی، پھر حکم ہوا کے ان مخالفین سے جنہونے اسلام کی اشاعت کو روک رکھا ہے اور مسلموں کو تنگ کر رہے ہیں، ان سے باقاعدہ جنگ کرو.

عن عبد الله بن عمر-رضي الله عنهما- قال:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " بُعِثْتُ بَيْنَ يَدَيْ السَّاعَةِ بالسَّيْفِ، حتى يُعبدَ اللهُ وحدَه لا شريك له، وَجُعِلَ رِزْقِي تَحْتَ ظِلّ رُمْحِي، وَجُعِلَ الذِّلَّةُ وَالصَّغَارُ عَلَى مَنْ خَالَفَ أَمْرِي، وَمَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ  " (مسند احمد)

 عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ "‏ مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ ‏"‏ ‏.‏ (سنن ابو داود)

مسند احمد اور ابو داود میں ہے کے رسول الله ﷺ فرماتے ہیں کے میں قیامت کے آگے تلوار کے ساتھ بھیجا گیا ہوں، یہاں تک کہ الله وحدہ لا شریک لہ کی ہی عبادت کی جاۓ اور میرا رزق میرے نیزے کے سائے تلے رکھا گیا ہے، اور ذلت ان لوگن پر ہے جو میرے حکم کے خلاف کریں، اور جو کسی قوم کی مشابہت کرے وہ انھیں میں سے ہے. (مسند احمد، سنن ابو داود)

پس لوہے سے لڑائی کے ہتیار بنتے ہیں جیسے تلوار، نیزے وغیرہ، اور لوگن کے لیے اس کے علاوہ بھی بہت سے فائدے ہیں جیسے سکے، کدال، پھاوڑے، آری، کھیتی باڑی کے آلات  وغیرہ جو انسانی زندگی کی ضروریات ہیں. (خلاصہ میں تفسیر ابن کثیر)

یہاں یہ بات بھی سمجھ آ جاتی ہے کے الله تعالیٰ خود بہت قوی و غالب ہیں اور اپنے دشمنوں کو یک مشت شکست دی سکتے ہیں، اور جہاد کی یہ ترغیب اپنے بندوں کے امتحان کے لئے کرتا ہے. یعنی کون واقعی رسول کے ساتھ ہے اور کون محض دکھاوے کر رہے ہیں.

اس آیات کی تشریحات سے یہ بات سامنے آ گئی اور واضح کے الله تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے ساتھ ایک اجتمائی عدل اور اخلاقیات کا معیار بھی مقرر کیا.  یہی وہ دین ہے جو انسان کی انفرادی اور اجتمائی معاشرت میں ہماری رہنمائی کرتا ہے، اور دوسرے سارے ادیان کی نفی بھی کرتا ہے. ایک اور آیات میں الله تعالیٰ نے فرمایا.

 هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ 

وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے تمام کے تمام ادیان پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو (سوره الصف  ٦١:٩)

یہ آیات قرآن میں ٣ دفعہ سنائی گئی ہیں. سوره توبہ (٩:٣٣) اور سوره الفتح (٤٨:٢٨). یہاں یہ بات بلکل مبین ہے کے الله کا دین تمام ادیان پر غالب آ کر رہے گا، ایک زمین پر دو دین نہیں قائم ہونگے، چاہے یہ بات مشرکین کو کتنی ہی ناگوار گزرے.  صرف اللہ کے دین ہی کی حکمرانی ہو گی.

رسول الله نے فرمایا میرے لیے مشرق اور مغرب کی زمین لپیٹ دی گئی اور میری امت کا ملک ان تمام جگہوں تک پونچھے گا (صحیح مسلم)

آپ فرماتے ہیں تمارے ہاتوں پر مشرق اور مغرب فتح ہوگا اور تمہارے سردار جہنمی ہے بجز ان کے جو متقی پرہیزگار اور امانت دار ہیں. (احمد)

یعنی کتنی واضح بات ہے. کہ جو مشرک الله کے نظام میں دوسرے نظاموں کی آمیزش کی خواہش رکھتے ہیں انکو شدید ناگواری ہو گی. اور دین اسلام مشرق و مغرب میں قائم ہو گا، اور ایک ریاست کی شکل میں ہی ناظم ہوگا. صرف الله کے دین کی حکمرانی ہوگی.  حلانکے مشرک اور انکے ساتھی تو یہی چاہتے ہیں کیں الله کے اس دین کو مٹا دیں چاہے انفرادی زدگی میں ہو یا اجتمائی معاشرت میں ہو، انکی ہر ممکن کوشش یہی رہتی ہے کی اس دین کو ہٹا کر وہاں اپنا نظام قائم کر دیں.

الله تعالیٰ ایک اور جگا فرما رہے ہیں کے:

وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ 

جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں (٥:٤٤)

اب یہ کیونکر ممکن ہیں کے اگر ریاست اسلام کے تابع نہ ہو گی تو یہ عدل اجتمائی مسلموں کی معاشرت میں کیسے نافذ ہو سکے گا؟ اور جو شخص اور ریاست اس آیات کے حکم پر عمل نہیں کرتی اس کا فیصلہ تو اس آیات نے کر دیا. پھر بھی لوگ ضد میں آ کر اپنی بات پر اڑے راہیں تو ہم ان کے لئے دعا ہی کر سکتے ہیں.  الله ہمیں اور انہیں ہدایت دے.

ایک اور آیات میں الله تعالیٰ فرماتے ہیں :

 الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ

یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے (٢٢:٤١)

یعنی جب مسلمانوں کو ریاست دی جائے گی تو وہ وہاں الله ہی کا نظام دین قائم کرینگے. معروف کا حکم دینگے اور منکر سے روکیں گے. یہ منکر اور معروف آخر کہاں سے پتا چلیں گے؟ ظاہر ہے یہ الله کی کتاب اور اس کے رسول کی تعلیمات سے ہی ملینگے.

تفسیر میں ہے حضرت عثمان راضی الله عنہ فرماتے ہیں یہ آیات ہمارے بارے میں اتری ہے. ہم بے سبب خارج از وطن کئے گئے، پھر ہمیں الله نے سلطنت دی، ہم نے نماز و روزہ کی پابندی کی، بھلے احکام دیے اور برائی سے روکنا جاری کیا. (خلاصہ تفسیر ابن کثیر)

جاری ہے.