إن الحمد لله نحمده ونستعينه و نستغفره ونتوكله إليه ، ونعوز بالله من شرور أنفسنا و سيئات أعمالنا ، من يهده الله فلا مضل له و من يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له ، وأشهد أنّ محمد عبده و رسوله ، و صلي الله على سيدنا محمد و على آله و آصحابه و سلم - أما بعد:
خلاصہ کلام
شاہ ولی الله کی کتاب ازالہ الخفاء سے اقتباس
شاہ ولی الله کی کتاب ازالہ الخفاء عن خلافہ الخلفاء سے چند باتوں کا خلاصہ. اس کتاب میں مقام خلافت، خلافت راشدہ اور امور خلافت سے متعلق بحث ہے. اصل کتاب فارسی میں لکھی گئی تھی. ہم نے اسکا کچھ خلاصہ یہا رقم کیا ہے. شاه ولی اللہ برصغیر کے ان چند علماء میں سے ہیں جنہونے اپنے نفس کو تقلید کی جہالت سے آزاد کیا. اور عالم اسلام میں بھی ان چند علماء میں سے ہیں جنہونے اسرار دین اور مقاصد شریعہ پر تحقیق کی اور اس پر مدلل کتاب لکھی. اور یہ بھی الله کا شکر ہے کے آپ ان فرقواریت والے طبقوں سے اپنے تفکرات کو بچانے میں کامیاب ہوئے.
یہ کتاب اس ضمن میں لکھی کے لوگوں کو خلافت کے بارے میں شبھات ہوئیں کہ طلب دنیا کے لیے خلافت کے حصول کی وجہ سے خلافت کو بلکل غیر مستحق قرار دی دیا. شاہ صاحب خلافت الراشدہ کو اصل الدین میں ہیں شمار کرتے ہیں. اور خلافت کو ریاست عامّہ کا ہی درجہ دیتے ہیں. جس کا مقصد ارکان اسلام کے قائم رکھنے، اور جہاد کے لیے فوج کا مرتب کرنا، اور ان کی کی تنخوا و وظائف، عدل و قضا کا شعبہ قائم کرنا، الله کی حدود قائم کرنا، مظالم کو دور کرنے کی لیے اچھے کاموں کا انتظام اور برے کاموں سے روکنے کا انتظام کرنا وغیرہ ہے. آپ نے اسی کو اقامت دین تعبیر کیا ہے.
آپ نے ریاست کے لیے علوم دین کی اشاعت و تبلیغ، اور ارکان اسلام کا قائم کرنا اس میں شامل سمجھا، جیسے نماز اور زکات وغیرہ کا انتظام. آپ نے مسلمانوں کی ریاست کا حقدار ایسے شخص کو سمجھا جو ان تمام کاموں کو سچائی اور ایمانداری کے ساتھ انجام رکھنے کی صلاحیت رکھے گا، وہی اس کا حقدار ہو گا.
آپ نے ریاست عامّہ ان لوگوں کو نہیں شامل سمجھا جو تعلیم کے شعبے، یا فوج کے شعبے، یا قضا و قاضی کے دفتر سے متعلق ہوں. اور شاید اس لیے کے ایک وقت میں دو زمداریوں کو ایک منصب میں نہیں شامل کیا جا سکتا. اور ایسے لوگوں کو بھی شامل نہیں کیا جو مال و دولت کے حصول کے لیے اس منصب کا عھدہ چاہتے ہوں، تاکے اپنے عھدے کی طاقت سے جبرا لوگوں سے مال وصول کریں. ایسا شخص چاہے کتنا بھی قابل ہو، اسے یہ منصب نہیں ملنا چاہئیے.
شاہ صاحب مسلمانوں کی ریاست عامّہ میں ایسے شخص کو خلیفہ کا منصب دینے کو فرض کفایہ سمجھتے ہیں، کہ یہ قیامت تک فرض کفایہ ہے. وہ یہ سمجھتے ہیں کیں اگر یہ انتہائی اہم مقصد نہ ہوتا تو صحابہ کرام خلیفہ کے انتخاب کو رسول الله کے دفن پر مقدم نہ کرتے. اس سے ظاہر ہے کے انتظام حکومت کتنا اہم ہے.
شاہ صاحب یہ بھی کہتے ہیں کے الله نے جہاد کو، عدلیہ کو، علوم دین کو زندہ رکھنا، ارکان اسلام کو قائم رکھنا اور مسلموں کے ملک میں کفّار کے حملوں کا توڑ کرنا فرض کفایہ ہے. یہ سب باتیں بغیر امام (یا خلیفہ یا امیر یا صدر) و ریاست کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتیں. پھر قاعدہ کلیہ یہ ہیں کے فرض کفایہ کا حصول جس چیز پر بھی موقوف ہوگا وہ چیز بھی فرض کفایہ ہوتی ہے. بڑے بڑے صحابہ نے اس قاعدہ کلیہ پر امّت کو متنبہ کیا ہے.
پھر اگر کوئی مسلموں کو ریاست قائم کرنا چاہے گا تو وہ انہی شرائط پر موقوف ہو گی. اور مسلمانوں کا امیر بھی مسلمان ہو گا. اور اگرچے وہ مرتد ہو جائے تو پھر اس سے لڑھ کر ہٹانا واجب ہو گا. پھر امیر مجنوں اور بیوقوف کو نہیں بنایا جا سکتا. اور خلیفہ عورت کو نہیں بنایا جائے گا، کیونکے رسول اللہ نے اہل فارس نے کاسرا کی بیٹی کو بادشاہ بنایا ہے سن کر فرمایا کے کبھی کامیاب نہ ہوئے وہ لوگ جنہونے اپنی سلطنت کا انتظام ایک عورت کے ہاتھ میں دی دیا ہو. پھر امیر بہادر ہو، نہ کے ڈرپوک بزدل ہو جو دشمن سے دار جائے. پھر امیر عادل ہو اور گھنا کبیرہ سے پرہیز کرنے والا ہو، اور صغیرہ گھناہوں پر اسرار نہ کرتا ہو. پھر امیر مجتہد ہو، کیوں کے اسے عدل و قضا، امر المعروف و نہی عن المنکر، اور علوم دین زندہ رکھنے کے لیے اجتہاد کی ضرورت ہو گی. اس زمانے میں مجھتہد وہی ہو سکتا ہے جو قرآن کی قرات و تفسیر سے واقف ہو، صحیح احادیث کا علم ہو، دین و فقہ کے مسائل سمجھتا ہو، عربی زبان سمجھتا ہو (جو دین سمجھنے کے لیے ضروری ہے )، اور استمباط کے طریقوں کا علم رکھتا ہو. اس کا مطلوب یہ نہیں کے وہ ابو حنیفہ اور شافعی ہو، بلکے اتنی بات پتا ہو کے استدلال سمجھ لے اور قوی ظن کا حامل ہو.
شاہ صاحب یہ بات کہ رہے ہیں کے مسلمانوں کی ریاست کے مقاصد میں یہ شرائط ہیں، اور اس میں وہی لوگ عھدہ برا ہو سکتے ہیں جو ان مقاصد کو قائم رکھنے کی اہلیت رکھتے ہوں. اور ایسی ریاست کا حصول مسلمانوں پر فرض کفایہ ہے. باقی کافی تفصیلات شاہ صاحب کتاب میں لکھ رہے ہیں یہ ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کی لیے کافی ہو جو status quo کو ہی اپنا دین سمجھ رہے ہیں، اور اپنی ریاستوں کو اس طریق پے لانے کے لیے کوئی حق آواز نہیں بلند کر رہے ہیں، نہ ہی وہ اس کو فرض کفایہ مان رہے ہیں. اور مسلمانوں کی ریاست ایسی بنیاد پر قائم رکھنا چاہ رہے ہیں جس کی کوئی اینٹ بھی دین سے تعلق نہیں رکھتی ہو، نہ ہی اسے اقامت دین کی فکر ہو.
یہاں یہ بھی فرمایا کے کسی سلطان کی مسلمانوں پر حکومت پر اتفاق کے بعد اس سے بغاوت کرنا حرام ہے، چاہے وہ امیر کی ان شرائط پے پورا ہی کیوں نہ اترتا ہو، الا یہ کے وہ صریح کفر ظاہر کر دے. یہ اس لیے کہا خامہ خواں فتنہ اور خون خرابہ نہ ہو. ایسی تدبیر ہو کے وہاں مسلمانوں کی جان، مال، عزت اور املاک کو نقصان نہ ہو.
رسول الله نے فرمایا میرے بعد خلافت ٣٠ برس قائم رہے گی. اور اس خلافت کی علامتیں اور صفتیں الله نے قرآن میں اپنی آیات میں واضح کیں. اور عرباض بن ساریہ کی حدیث ہے کہ رسول الله نے فرمایا کے تم لوگ اپنے اپر لازم کر لو میری سنّت کو، اور خلفاء الراشدین کی سنّت کو جو میرے بعد ہونگے. الله تعالیٰ نے مسلمانوں سے بلاد شام اور بلاد عجم کا وعدہ کیا، اور فرمایا کے ( لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ) دین اسلام کو تمام دینوں پر غالب کر دیگا. اور یہ الله کی حکمت ہے کے یہ وعدہ رسول الله کے زمانے میں نہیں پورا ہوا، بلکے اصحاب الرسول خلیفہ الراشدین کے زمانے میں پورا ہوا. یہ بلکل اسی طرح ہے جیسے حضرت داود و سلیمان بنی اسرائیل کی ریاست چھوٹ جانے کے بعد خلیفہ ہوئے اور بنی اسرائیل (کے مسلمانوں) کو ان کی ریاست واپس دلائی. اور فرمایا (يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ) "اے داؤدؑ، ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے، لہٰذا تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کر" ٣٦:٢٦. اس طرح الله نے اس وقت کے مسلموں کو از سر نو مطمئن کر دیا کہ جب وہ واپس ایمان اور جہاد پے آئے تو الله نے داود کے ذریعہ انکی ریاست اور خلافت انھیں لوٹا دی. بلکل اسی طرح الله نے رسول الله کی وفات کے بعد جب ہر طرف بغاوت ہوئی اور مسلمان مرتد ہوے اور انکی ریاست کمزور ہوئی، تو الله نے فتح دلا کر وہیں مطمئن کیا. اور اپنا وعدہ جو سوره نور میں کیا تھا پورا کیا جو آیہ استخلاف میں ہے. تو یقینن الله ان اصحاب الرسول سے راضی ہونگے جب ہی انکو خلافت دی.
وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ
اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، اُن کے لیے اُن کے اُس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے اُن کے حق میں پسند کیا ہے، اور اُن کی (موجودہ) حالت خوف کو امن سے بدل دے گا، بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں (٢٤:٥٥)
یعنی اب مسلمان بے خطر اور بے خوف ہو جائیں، اب الله نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اب جس کام کا وعدہ مسلمانوں نے کیا تھا یعنی الله کا دین قائم کرنے کا تو اس کو پورا کریں اور اس میں مصروف راہیں. اس کو آیہ استخلاف اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں خلافت کا وعدہ ہے.
اور كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ کا مطلب یہ ہے کے جس طرح پہلی امتوں سے یہ اس طرح وعدہ کیا اور پورا کیا، بلکل ویسے ہی امت محمد سے کیا وعدہ بھی پورا کیا. جب تک مومن الله سے جڑے راہیں گے اور اس سے کے وعدے پر قائم راہیں گے، ریاست اور خلافت ان کے پاس رہے گی.
دیکھئے کتنی دلیل کے ساتھ شاہ صاحب بتا رہے ہیں کے خلافت و ریاست نبی کے امتیوں کو ملتی ہے، تاکہ وہ الله کے خلیفہ ہونے کا حق ادا کریں اور اپنا وعدہ پورا کرتے ہوے دین کو قائم رکھیں. اور نہ تو یہ بات بھی قرآن میں ہے کے وعدہ خلاف مسلمانوں سے الله خلافت چھین کر کسی اور کو دی دیتے ہیں. جب ان خلیفہ الرسول کو ریاست ملی تو انہونے دین کی اقامت میں کوئی کسر نہ چھوڑی. کیونکے خلافت شرعی اس تکمین فی الارض کا نام ہے جو اقامت دین کے ساتھ ہو. جیسے الله نے فرمایا
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّـهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِیہ
وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے ٢٢:٤١
اسی طرح ایک حکمت اور دینی مصلحت جہاد میں ہے. وہ یہ کے حکمت الہیہ اس بات کو مقتضی ہے کے دین حق ہر زمانے میں پیغمبروں اور ان کے نائبوں کے ہاتھ سے غالب ہوتا ہے اور کافر اور انکو دوست ہمیشہ دین حق کے غالب ہونے پر غصہ سے اپنی انگلیاں چباتے ہیں. اور جب یہ لوگ غالب آیئں گے اور فتحیاب ہونگے تو پھر اقامت دین قائم کرینگے. دیکھئے قرآن کی حفاظت میں اقامت دین کیا کیسا کردار ہے، اور الله تعالیٰ اس کے لئے کیسی سبیل کرتے ہیں.
الله تعالیٰ نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کے وہ قرآن کی حفاظت فرمائیں گے. ( وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ) " اور ہم خود اِس کے نگہبان ہیں" ١٥:٩ ، اور ایک اور جگہ فرمایا (إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ) "اِس کو یاد کرا دینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے" ٧٥:١٧. الله تعالیٰ اپنی چیز کی حفاظت ایسے نہیں کرتا جیسے انسان کرتے ہیں کے صرف پتھر پر نقش کر کے چور دیا. بلکے اس کی خارجی صورت یہ ہے کہ وہ اپنے نیک بندوں کے دلوں میں اس کی محبت جگاتا ہے اور ایسے سبب پیدا کرتا ہے کے وہ ایک ہی نکتے پر متفق ہو جایئں، اور قرآن حفظ کریں، اور ہمیشہ کچھ جماعتیں اس کی تفسیر اور تفصیل میں مشغول رہیں.
بہرحال کتاب بہت طویل ہے اور شاہ صاحب کا کمال ہے اور اسرار دین میں انکی بڑی محنت ہے، کہ اس تمام کے تمام کلام کی فصاحت کے آپ ہی ذمدار ہیں، اور تمام دعاؤں کے حقدار بھی شاہ ولی الله صاحب ہیں.
اس خلاصے سے اتنی بات تو واضح ہو گئی کے:
- دین اور ریاست کوئی دو چیزیں نہیں ہیں. اور حکومت کا قیام کوئی ایسی اچھوتی چیز نہیں ہے جس کا اہتمام نبی اور انکے نائب امتی نہ کرتے ہوں. بلکے یہ دین ہی کا ایک حصّہ ہے جو اقامت دین کے لیے نبی کی امتوں کے ساتھ جب تک رہتا ہے جب تک وہ ان کے دین پر قائم رہیں. اور جب وہ اپنے دین سے پھر جاتے ہیں تو یہ منصب دوسری امت کو دی دیا جاتا ہے.
- کیونکے الله نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے، تو وہ اسکی حفاظت کریں گے. اور پھر اسکی حفاظت صرف ان شایع شدہ الفاظ ہی کی نہیں ہو گی، بلکے اس کا مفہوم اور اس کی اقامت کا صحیح طریقہ بھی محفوظ رہے گا. اسی طرح ریاست کی طاقت نبی اور ان کے نائبوں کو دینے کا مطلوب ہی یہی ہے کے وہ اچھی طرح دین کو دنیا میں قائم کریں، اور اسے آگے تک پھلائیں.
- اور یہ بھی حکمت کے یہ فتوحات نبی کے زمانے میں نہیں ہوئیں بلکے آپ کی وفات کے بعد ہوئیں، اور الله کا کیا ہوا وعدہ آپ کی وفات کے بعد پورا ہوا. یہ اس بعد کی صریحا دلیل ہے کے ریاست مسلمانوں کے ہاتھ میں دینا دین کا ہی ایک جز ہے. کے اس سے یہ بعد بھی ثابت ہو جاتی ہے کے خلافت و ریاست انہی کا مقدار بنیگی جو رسول الله کی سنّت پر عمل کرکے اقامت دین میں سچے ہوں اور الله سے کیا اپنا وعدہ پورا کریں.
- اور پھر یہ ایک تاریخی عمل ہے کے الله تعالیٰ یہ خلافت اپنے نبی کی امتوں کو دیتے ہیں جو تکمین فی الارض میں اقامت دین کرتے ہیں، اور ایک شرعی خلافت (ریاست) قائم کرتے ہیں. اور پھر یہ خلافت اس امّت کے پاس اس وقت تک رہتی ہے جب تک وہ الله سے کئے اس وعدے پر قائم رہتے ہیں.
- ٥. کیونکے اب کوئی نیا نبی نہیں آئے گا. چناچے اب نبی آخر کی امت میں جو سچے دل سے اقامت دین کرنا چاہے، اس کے لیے نبی کی سنّت ہے اور آپ کے خلفاء الراشدین کی سنّت ہے جس پے عمل کر کے وہ یہ مقصد حاصل کر سکتے ہیں.
- پھر شاہ صاحب نے تفصیلا وہ شرائط بھی گھنوا دین جو اس ریاست اور اسکے نظام اور اسکے چلانے والوں میں ہونی چاہیں. یعنی دین میں اسکا ایک مکمل انتظام موجود ہے جن کی دلیلیں وہ بتا رہے ہیں. نہ کے ہر ہرا غیرہ اپنا اپنا نظام لی کر آ جائے اور مسلمانوں پر ناجائز حکمرانی کرے.
وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ
جاری ہے